Sunday, November 29, 2015

قسط # 14، 2015 29 نومبر

پیارے ہم وطنو، ہیلو.




نوٹ: origianl بنایا ہندی نقل سے گوگل ترجمہ سروس استعمال کرتے ہوئے ترجمہ، اس وجہ سے 100٪ درست نہیں ہو 
سکتا کے نتیجے.

دیوالی کے پاون تہوار کے درمیان آپ نے چھٹیاں بہت اچھے طریقے سے منائی ہوں گی. کہیں جانے کا موقع بھی ملا ہو گا. اور نئے امنگ-حوصلہ افزائی کے ساتھ کاروبار روزگار بھی شروع ہو گئے ہوں گے. دوسری طرف کرسمس تیاری بھی شروع ہو گئی ہوں گی. معاشرے کی زندگی میں جشن کا اپنا ایک اہمیت ہے. کبھی جشن زخم بھرنے کے لئے کام آتے ہیں، تو کبھی جشن نئی اورذا دیتے ہیں. لیکن کبھی کبھی جشن کے اس وقت میں جب بحران آ جائے تو زیادہ زخم ہو جاتا ہے، اور زخم لگتا ہے. دنیا کے ہر کونے میں سے مسلسل قدرتی آفت کی خبریں آیا ہی کرتی ہیں. اور نہ کبھی سنا ہو اور نہ کبھی سوچا ہو، ایسی ایسی قدرتی آفات کی خبریں آتی رہتی ہیں. موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کتنا تیزی سے بڑھ رہا ہے یہ اب ہم لوگ تجربہ کر رہے ہیں. ہمارے ہی ملک میں، گزشتہ دنوں جس طرح سے بہت بارش اور وہ بھی بےموسمي بارش اور طویل عرصے تک بارش، خاص کر کے تمل ناڈو میں جو نقصان ہوا ہے، اور ریاستوں کو بھی اس کا اثر ہوا ہے. بہت سے لوگوں کی جانیں گئیں. میں اس بحران کی گھڑی میں ان تمام خاندانوں کے تئیں اپنی غم-تعزیت ظاہر کرتا ہوں. ریاستی حکومتیں امدادی کاموں میں پوری طاقت سے جٹ جاتی ہیں. مرکزی حکومت بھی ہمیشہ کندھے سے کندھا ملا کر کام کرتی ہے. ابھی حکومت کی ایک ٹیم تمل ناڈو گئی ہوئی ہے. لیکن مجھے یقین ہے تمل ناڈو کی طاقت پر اس بحران کے باوجود بھی وہ پھر ایک بار بہت تیز رفتار سے آگے بڑھنے لگ جائے گا. اور ملک کو آگے بڑھانے میں جو اس کردار ہے وہ ادا کرتا رہے گا.

لیکن جب یہ چاروں طرف بحرانوں کی باتیں دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں کافی تبدیلی لانے کی ضرورت ہو گئی ہے. آج سے 15 سال پہلے قدرتی آفت ایک محکمہ زراعت کا حصہ ہوا کرتا تھا، کیونکہ اس وقت زیادہ سے زیادہ قدرتی اپداے یعنی قحط یہیں تک محدود تھا. آج تو اس کا طور ہی بدل گیا ہے. ہر level پہ ہمیں اپنی Capacity Building کے لئے کام کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے. حکومتوں نے civil society نے، شہریوں نے، ہر چھوٹی موٹی اداروں نے بہت سائنسی انداز میں Capacity Building کے لئے کام کرنا ہی پڑے گا. نیپال کے زلزلے کے بعد میں نے پاکستان کے وزیر اعظم صاحب نواز شریف سے بات کی تھی. اور میں نے ان سے ایک مشورہ دیا تھا کہ ہم SAARC ممالک نے مل کر Disaster Preparedness کے لئے ایک joint exercise کرنا چاہیے. مجھے خوشی ہے کہ SAARC ممالک کے ایک table talk exercise اور best practices کا seminar workshop دہلی میں نتیجہ اخذ کیا. ایک اچھی شروعات ہوئی ہے.

مجھے آج پنجاب کے جلدھر سے لكھودر سنگھ کا phone ملا ہے. 'میں لكھودر سنگھ، پنجاب ضلع جلدھر سے بول رہا ہوں. ہم یہاں پر نامیاتی کاشتکاری کرتے ہیں اور کافی لوگوں کو کاشت کے بارے میں guide بھی کرتے ہیں. میرا ایک سوال ہے کہ جو یہ کھیتوں کو لوگ آگ لگاتے ہیں، تنکے یا گندم کے جھاڑ کے لیے کس طرح ان کو لوگوں کو guide کیا جائے کہ زمین ماں کو جو ٹھیک ٹھیک بیکٹیریا ہیں، ان پر کتنا خراب کر رہے ہیں اور جو یہ آلودگی ہو رہا ہے دہلی میں، ہریانہ میں، پنجاب میں اس سے کیسے ریلیف ملے. "لكھودر سنگھ جی مجھے بہت خوشی ہوئی آپ کے پیغام سن کی طرف سے. ایک تو لطف اس بات کا ہوا کہ آپ نامیاتی کاشتکاری کرنے والے کسان ہیں. اور خود نامیاتی کاشتکاری کرتے ہیں یہ نہ صرف آپ کو کسانوں کے مسئلہ کو خوب سمجھتے ہیں. اور آپ کی فکر صحیح ہے لیکن یہ صرف پنجاب، ہریانہ میں ہی ہوتا ہے ایسا نہیں ہے. پورے ہندوستان میں یہ ہم لوگوں کی عادت ہے اور روایتی طور پر ہم اسی طرح سے آپ کی فصل کے اوشیشوں کو جلانے کے راستے پر چل پڑتے ہیں. ایک تو پہلے نقصان کا انداز نہیں تھا. سب کرتے ہیں تو ہم کرتے ہیں وہ ہی عادت تھی. دوسرا، پیمائش کیا ہوتے ہیں اس کا بھی تربیت نہیں ہوا. اور اس کی وجہ یہ چلتا ہی گیا، بڑھتا ہی گیا اور آج جو موسمیاتی تبدیلی کا بحران ہے، اس وہ جڑتا گیا. اور جب اس بحران کے اثرات شہروں کی طرف آنے لگا تو ذرا آواز بھی سنائی دینے لگی. لیکن آپ نے جو درد کا اظہار کیا ہے وہ صحیح ہے. سب سے پہلے تو طریقہ ہے ہمیں ہمارے کسان بھائیو بہنوں کی تربیت کرنا پڑے گا ان سچائی وضاحت پڑے گا کہ فصل اوشیشوں جلانے سے ہو سکتا ہے وقت بچتا گے، محنت بچتی ہوگی. اگلی فصل کے لئے فارم تیار ہو جاتا گے. لیکن یہ حقیقت نہیں ہے. فصل اوشیشوں بھی بہت قیمتی ہوتے ہیں. وہ اپنے آپ میں وہ ایک نامیاتی کھاد ہوتا ہے. ہم اس کو برباد کرتے ہیں. اتنا ہی نہیں ہے تو اس کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دیے جائیں تو وہ جانوروں کے لئے تو dry-fruit بن جاتا ہے. دوسرا یہ جلانے کی وجہ سے زمین کی جو اوپری پرت ہوتی ہے وہ پانی جاتی ہے.

میرے کسان بھائی بہن پل بھر کے لئے یہ سوچئے کہ ہماری ہڈیاں مضبوط ہوں، ہمارا دل مضبوط ہو، kidney اچھی ہو، سب کچھ ہو لیکن اگر جسم کے اوپر کی چمڑی جل جائے تو کیا ہوگا؟ ہم زندہ بچ پائیں گے کیا؟ دل سارا گے تو بھی زندہ نہیں بچ پائیں گے. جیسے جسم کی ہماری چمڑی جل جائے تو جینا مشکل ہو جاتا ہے. اسی طرح، یہ فصل اوشیشوں مثنی جلانے سے صرف مثنی نہیں جل، یہ زمین ماں کی چمڑی جل جاتی ہے. ہماری زمین کے اوپر کی پرت پانی جاتی ہے، جو ہمارے پیداواری زمین کو موت کی طرف دھکیل دیتی ہے. اور اس وجہ سے اس کے مثبت کوشش کرنا چاہئے. اس مثنی کو پھر سے ایک بار زمین میں دبوچ دیا، تو بھی وہ کھاد بن جاتا ہے. یا اگر کسی گڑھے میں ڈھیر کر كےچے ڈال کے تھوڑا سا پانی ڈال دیا تو بہترین قسم کا نامیاتی کھاد بن کر آ جاتا ہے. جانوروں کے کھانے کے کام تو آتا ہی آتا ہے، اور ہماری زمین بچتی ہے اتنا ہی نہیں، اس زمین میں تیار ہوا کھاد اس ڈالا جائے، تو وہ double فائدہ دیتی ہے.

مجھے ایک بار کیلے کی کاشت کرنے والے کسان بھائیوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا. اور انہوں نے مجھے ایک بڑا اچھا تجربہ بتایا. پہلے وہ جب کیلے کی کاشت کرتے تھے اور جب کیلے کی فصل ختم ہوتی تھی تو کیلے کے جو مثنی رہتے تھے، اس کو صاف کرنے کے لئے فی hectare کبھی کبھی ان 5 ہزار، 10 ہزار، 15 ہزار روپے کا خرچ کرنا پڑتا تھا. اور جب تک اس کو اٹھانے والے لوگ کواڈ ویکٹر لے کر آتے نہیں تب تک وہ ایسے ہی کھڑا رہتا تھا. لیکن کچھ کسانوں نے prove کیا اس مثنی کے ہی 6-6، 8-8 inch کے ٹکڑے کئے اور اس کو زمین میں دفن دیئے. تو تجربہ یہ آیا اس کیلے کے مثنی میں اتنا پانی ہے کہ جہاں اس کو دفن کر دیا جاتا ہے، وہاں اگر کوئی درخت، کوئی پودا ہے، کوئی فصل ہے تو تین ماہ تک باہر کے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی. وہ مثنی میں جو پانی ہے، وہی پانی فصل کو زندہ رکھتا ہے. اور اذ تو ان مثنی بھی بڑے قیمتی ہو گئے ہیں. ان مثنی میں ہی ان کی آمدنی ہونے لگی ہے. جو پہلے مثنی کی صفائی کا خرچہ کرنا پڑتا تھا، آج وہ مثنی کی مانگ بڑھ گئی ہے. تھوڑا سا استعمال بھی کتنا بڑا فائدہ کر سکتا ہے، یہ تو ہمارے کسان بھائی کسی بھی سائنسی سے کم نہیں ہیں.

پیارے ہم وطنو آئندہ 3 دسمبر کو 'International Day of Persons with Disabilities' مکمل عالمی یاد کرے گا. پچھلی بار 'دل کی بات' میں نے 'Organ Donation' پر بحث کی تھی. 'Organ Donation' کے لئے میں نے NOTO کے helpline کی بھی بات چیت کی تھی اور مجھے بتایا گیا کہ دماغ کی اس بات کے بعد phone calls میں تقریبا 7 گنا اضافہ ہو گئی. اور website پر ڈھائی گنا اضافہ ہو گئی. 27 نومبر کو 'Indian Organ Donation Day' کے طور پر منایا گیا. معاشرے کے بہت سے نامی افراد نے حصہ لیا. فلم اداکارہ روینا ٹنڈن سمیت، بہت نامی لوگ اس سے منسلک. 'Organ Donation' قیمتی جںدگیوں کو بچا سکتا ہے. 'اگدان' ایک قسم کی طرف سے امرتا لے کر آ جاتا ہے. ایک جسم سے دوسرے جسم میں جب عضو جاتا ہے تو اس عضو کو نئی زندگی مل جاتا ہے لیکن اس کی زندگی کو نئی زندگی مل جاتی ہے. اس سے بڑا بہترین عطیہ اور کیا ہو سکتا ہے. Transplant کے لئے انتظار کر رہے مریضوں، organ donors، organ transplantation کی ایک national registry 27 نومبر کو launch کر دی گئی ہے. NOTO کا logo، donor card اور slogan design کرنے کے لئے 'mygov.in' کی طرف سے ایک national competition رکھی گئی اور میرے لئے تاجذب تھا کہ اتنے لاکھوں اتنا حصہ لیا، تو innovative way میں اور بڑی تعزیت کے ساتھ باتیں بتائیں. مجھے یقین ہے کہ اس علاقے پر بھی وسیع بیداری بڑھے گی اور سچے معنی میں ضرورت مند کو بہترین سے بہترین مدد ملے گی، کیونکہ یہ مدد کہیں سے اور سے نہیں مل سکتی جب تک کہ کوئی صدقہ نہ کرے.

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا 3 دسمبر معذور دن کے طور پر منایا جاتا ہے. جسمانی اور ذہنی طور پر معذور وہ بھی ایک کو unequaled ہمت اور affordability کے امیر ہیں. کبھی کبھی درد اس وقت ہوتی ہے جب کہیں کبھی ان کا مذاق ہو جاتا ہے. کبھی کبھار ہمدردی اور رحم کا جذبہ ظاہر کیا جاتا ہے. لیکن اگر ہم ہماری نظر تبدیل کریں، ان کی طرف دیکھنے کا نظریہ بدلیں تو یہ لوگ ہمیں رہنے کی ترغیب دے سکتے ہیں. کچھ گزرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں. ہم چھوٹی سی بھی مصیبت آ جائے تو رونے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں. تب یاد آتا ہے کہ میرا تو بحران بہت چھوٹا ہے، یہ کس طرح گزارا کرتا ہے؟ یہ کیسے جیتا ہے؟ کس طرح کام کرتا ہے؟ اور اس وجہ سے یہ سب ہمارے لئے پریرتا کے ذریعہ ہیں. ان قرارداد طاقت، ان کی زندگی کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا طریقہ اور بحران کو بھی قدرت میں تبدیل کر دینے کی ان کی اتسکتا قابل-داد ہوتی ہے.

جاوید احمد، میں آج ان کی بات بتانا چاہتا ہوں. 40-42 سال کی عمر ہے. 1996 کشمیر میں، جاوید احمد کو دہشت گردوں نے گولی مار دی تھی. وہ دہشت گردوں کے شکار ہو گئے، لیکن بچ گئے. لیکن، دہشت گردوں کی گولیوں کی وجہ سے kidney گنوا دی. Intestine اور آنت کا ایک حصہ کھو دیا. serious nature کی spinal injury ہو گئی. اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا قدرت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلا گیا، لیکن جاوید احمد نے ہار نہیں مانی. دہشت گردی کی چوٹ بھی ان چت نہیں کر پائی. ان کا اپنا جذبہ، لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے بغیر کسی وجہ کے ایک معصوم انسان کو اتنی بڑی مصیبت جھیلنی پڑی ہو، جوانی خطرے میں پڑ گئی ہو لیکن نہ کوئی غصہ، نہ کوئی غصہ اس بحران کو بھی جاوید احمد نے تعزیت میں تبدیل کر دیا. انہوں نے آپ کی زندگی کو سماجی خدمت میں پیش کر دیا. جسم ساتھ نہیں دیتا ہے لیکن 20 سال سے وہ بچوں کی تعلیم میں ڈوب گئے ہیں. جسمانی طور پر معذور لوگوں کے لئے infrastructure بہتر کس طرح آئیں؟ عوامی مقامات پر، سرکاری دفتروں میں معذور کے لئے منتظمین کس طرح تیار کی جائیں؟ اس پر وہ کام کر رہے ہیں. انہوں نے اپنی تعلیم بھی اسی سمت میں ڈھال دیا. انہوں نے social work میں Master Degree لے لی اور ایک سماجسےوك کے طور پر ایک ہوش شہری کے ناطے معذور افراد کے مسیحا بن کر کے وہ آج ایک silent revolution کر رہے ہیں. کیا جاوید کی زندگی ہندوستان کے ہر کونے میں ہمیں پریرتا دینے کے لئے کافی نہیں ہے کیا؟ میں جاوید احمد کی زندگی کو، ان کی اس سادگی کو اور ان کے اعتراف کے لیے 3 دسمبر کو خاص طور پر یاد کرتا ہوں. وقت غیر موجودگی میں میں اگرچہ جاوید کی بات کر رہا ہوں لیکن ہندوستان کے ہر کونے میں ایسے پریرتا کے گہرے پانی رہے ہیں. جینے کی نئی روشنی دے رہے ہیں، راستہ دکھا رہے ہیں. 3 دسمبر ایسے تمام ہر کسی کو یاد کر کے ان سے پریرتا حاصل کرنے کا موقع ہے.

ہمارا ملک اتنا بڑا ہے. بہت سی باتیں ہوتی ہیں جس میں ہم حکومتوں پر dependent ہیں. درمیانے طبقے کا شخص ہو، مندرجہ ذیل درمیانے طبقے کا شخص ہو، غریب ہو، دلت، شکار، استحصال، محروم ان کے لئے تو حکومت کے ساتھ سرکاری انتظامات کے ساتھ مسلسل تعلق آتا ہے. اور ایک شہری کے ناطے زندگی میں کبھی نہ کبھی تو کسی نہ کسی سرکاری بابو سے برا تجربہ آتا ہی آتا ہے. اور وہ ایک آدھ برا تجربہ زندگی بھر ہمیں سرکاری نظام کے فی دیکھنے کا ہمارا نظریہ بدل دیتا ہے. اس حقیقت بھی ہے لیکن کبھی کبھی اسی حکومت میں بیٹھے ہوئے لاکھوں لوگ خدمت انداز سے، لگن-انداز سے، اس طرح بہترین کام کرتے ہیں جو کبھی ہماری نظر میں نہیں آتے. کبھی ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا ہے، کیونکہ اتنا آرام دہ ہوتا ہے ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ کوئی سرکاری نظام، کوئی سرکاری ملازم یہ کام کر رہا ہے.

ہمارے ملک میں ASHA Workers جو پورے ملک میں network ہے. ہم بھارت کے لوگوں کے درمیان میں کبھی کبھی ASHA Workers کے سلسلے میں بحث نہ میں نے سنی ہے نہ آپ نے سنی ہوگی. لیکن مجھے جب بلگےٹس فاؤنڈیشن کے دنیا کے مشہور خاندان entrepreneur کے طور پر دنیا میں ان کی کامیابی کی ایک مثال بن چکی ہے.اس بلگےٹس اور ملڈاگےٹس ان کو ہم نے joint پدم وبھوشن دیا تھا آخری بار. وہ بھارت میں بہت سماجی کام کرتے ہیں. ان کا اپنا ریٹائرمنٹ کا وقت اور زندگی بھر جو کچھ بھی کمایا ہے غریبوں کے لئے کام کرنے میں سپلائی کی جا رہی ہیں .وہ جب بھی آتے ہیں، ملتے ہیں اور جن جن ASHA Workers کے ساتھ ان کے کام کرنے کا موقع ملا ہے، ان کی اتنی تعریف کرتے ہیں، اتنی تعریف کرتے ہیں، اور ان کے پاس کہنے کے لئے اتنا ہوتا ہے کہ یہ امید-ورکر کو کیا لگن ہے کتنی محنت کرتے ہیں. نیا-نیا سیکھنے کے لئے کتنا جوش ہے. یہ ساری باتیں وہ بتاتے ہیں. گزشتہ دنوں اڑیسہ گورنمنٹ نے ایک ASHA Worker کا یوم آزادی پر خصوصی احترام کیا. اڑیسہ کے بالاسور ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں تےداگاو امید-کارکن اور وہاں کی ساری آبادی شڈيول-ٹرائب ہے. شیڈول-قبائل کے لوگ ہیں، غربت ہے. اور ملیریا سے متاثر علاقہ ہے. اور اس گاؤں کی ایک امید-ورکر "جمنا مسه" اس نے ٹھان لی کہ اب میں اس تےداگاو میں ملیریا سے کسی کو مرنے نہیں دوں گی. وہ گھر گھر جانا مختصر سا بھی بخار کی خبر آ جائے تو پہنچ جاناسكو کو بنیادی ويوستھايے سکھائی گئی ہیں اس کی بنیاد پر علاج کے لئے لگ جانا. ہر گھر کیٹناشک کیسے مچھر دانیوں کا استعمال کرے اس پر زور دینا. جیسے اپنا ہی بچہ ٹھیک سے سو جائے اور جتنی کیئر کرنی چاہئے ویسی ASHA Worker "جمنا مسه" مکمل گاؤں مچھروں سے بچ کے رہے اس کے لئے پورے لگن انداز سے کام کرتی رہتی ہیں. اور اس نے ملیریا سے مقابلہ کیا، پورے گاؤں کو مقابلہ کرنے کے لئے تیار كياےسے تو کتنی "جمنا منی" ہوں گی. کتنے لاکھوں لوگ ہوں گے جو ہمارے اغل بغل میں ہوں گے. ہم تھوڑا سا ان کی طرف ایک عزت انداز سے دےكھےگےےسے لوگ ہمارے ملک کی کتنی بڑی طاقت بن جاتے ہیں. معاشرے کے سکھ دکھ کے کتنے بڑے ساتھی بن جاتے ہیں. میں ایسے تمام ASHA Workers کو "جمنا منی" کے ذریعے سے ان کا گوروگان کرتا ہوں.

میرے پیارے نوجوان دوستو، میں نے خاص نوجوان نسل کے لئے جو کہ انٹرنیٹ پر، سوشل میڈیا پر فعال ہیں. MyGov اس پر میں نے 3 eBooks رکھی ہے. ایک eBooks ہے صاف بھارت کی ترغیب واقعات کو لے کر کے، ارکان پارلیمنٹ کے مثالی گرام کے سلسلے میں اور ہیلتھ سیکٹر کے سلسلے میں، صحت کے سلسلے میں. میں آپ سے درخواست کرتا ہوں آپ اس کو دیکھیں. دیکھئے اتنا ہی نہیں اوروں کو بھی دكھايے اس کو پڑھیں اور ہو سکتا ہے آپ کو کوئی ایسی باتیں شامل کرنے کا من کر جائے. تو ضرور آپ 'MyGov.in' کو بھیج دیجئے. ایسی باتیں ایسی ہوتی ہے کہ بہت جلد ہمارے ذہن میں نہیں آتی ہے لیکن معاشرے کی تو وہی صحیح طاقت ہوتی ہے. مثبت طاقت ہی سب سے بڑی توانائی ہوتی ہے. آپ بھی اچھی واقعات کا اشتراک کریں. ان eBooks کو اشتراک کریں. eBooks پر بحث کریں اور اگر کوئی حوصلہ افزائی نوجوان انہی eBooks کو لے کر کے اڑوس پڑوس کے اسکولوں میں جاکر کے آٹھویں، نووي، دسویں کلاس کے بچوں کو بتائیں کہ دیکھو بھائی ایسا یہاں ہوا ایسا دیکھیں ہوا. آپ کو سچے معنی میں ایک معاشرے استاد بن حاصل ہے. میں آپ کو دعوت دیتا ہوں آئیے ملک کی تعمیر میں آپ بھی جڑ جائیں.

میرے پیارے ہم وطنوں، مکمل عالمی ماحولیاتی تبدیلی سے فکر مند ہے. climate change، global warming، ڈگر-ڈگر پر اس بحث بھی ہے فکر بھی ہے اور ہر کام کو اب سے پہلے ایک معیار کے طور پر اس کو منظوری ملتی جا رہی ہے. زمین کے درجہ حرارت اب بڑھنے نہیں چاہئے. یہ ہر کسی کی ذمہ داری بھی ہے فکر بھی ہے. اور درجہ حرارت سے بچنے کا ایک سب سے پہلا راستہ ہے، توانائی کی بچت "energy conservation" 14 دسمبر "National Energy Conservation Day" ہے. حکومت کی طرف سے بہت سے منصوبے چل رہی ہیں. LED بلب کی منصوبہ بندی چل رہی ہے. میں نے ایک بار کہا تھا کہ پورے چاند کی رات کو street lights بند کر اندھیرا کر گھنٹے بھر مکمل چاند کی روشنی میں نہانا چاہئے. اس چاند کی روشنی کا تجربہ کرنا چاہئے. ایک کسی دوست نے مجھے ایک link بھیجا تھا کو دیکھنے کے لئے اور اس کو دیکھنے کا موقع ملا، تو دل کر گیا کہ میں آپ کو بھی یہ بات بتاؤں. ویسے اس credit تو Zee News کو جاتی ہے. کیونکہ وہ link Zee News کا تھا. کانپور میں نورجہاں کی طرف سے ایک عورت TV پر سے لگتا نہیں ہے کوئی اس کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کا موقع ملا هوگالےكن ایک ایسا کام وہ کر رہی ہیں جو شاید کسی نے سوچا ہی نہیں ہوگا. وہ solar توانائی سے سورج کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے غریبوں کو روشنی دینے کا کام کر رہی ہے. وہ اندھیرے سے جنگ لڑ رہی ہے اور اپنے نام کو روشن کر رہی ہے. اس نے خواتین کی ایک کمیٹی بنائی ہے اور solar توانائی سے چلنے والی لالٹین اس کا ایک plant لگایا ہے اور مہینے کے 100 / - روپے کرایہ سے وہ لالٹین دیتی ہے. لوگ شام کو لالٹین لے جاتے ہیں، صبح آکر دوبارہ charging دے جاتے ہیں اور بہت بڑی مقدار میں تقریبا میں نے سنا ہے کہ 500 گھروں میں لوگ آتے ہیں لالٹین لے جاتے ہیں. روز قریب 3-4 رو. کا خرچ ہوتا ہے لیکن پورے گھر میں روشنی رہتی ہے اور یہ نورجہاں اس plant میں solar energy سے یہ لالٹین کو recharge کرنے کا دن بھر کام کرتی رہتی ہے. اب دیکھئے موسمیاتی تبدیلی کے دنیا کے بڑے بڑے لوگ کیا کیا کرتے ہوں گے لیکن ایک نورجہاں شاید ہر کسی کو پریرتا دے، ایسا کام کر رہی ہے. اور ویسے بھی، نورجہاں کو تو مطلب ہی ہے دنیا کو روشن کرنا. اس کام کی طرف سے روشنی پھیلا رہی ہیں. میں نورجہاں کو مبارکباد دیتا ہوں اور میں Zee TV بھی مبارک باد دیتا ہوں کیونکہ انہوں نے کانپور کے ایک چھوٹے سے کونے میں چل رہا اس کام ملک اور دنیا کے سامنے پیش کر دیا. بہت بہت مبارک ہو.

مجھے اتر پردیش کے سر ابھیشیک کمار پانڈے نے ایک فون کیا ہے "جی خوش میں ابھیشیک کمار پانڈے بول رہا ہوں گورکھپور سے بطور entrepreneur میں آج یہاں working ہوں، وزیر اعظم جی کو میں بہت مبارک ہو دینا چاہوں گا کہ انہوں نے ایک پروگرام شروع کیا MUDRA Bank ہم وزیر اعظم سے جاننا چاہتے ہیں کہ جو بھی یہ MUDRA Bank چل رہا ہے اس میں کس طرح سے ہم جیسے entrepreneurs ادھميو کو support کیا جا رہا ہے؟ تعاون کیا جا رہا ہے؟ "ابھیشیک جی شکریہ. گورکھپور سے آپ نے جو مجھے پیغام بھیجا. وزیر اعظم MUDRA منصوبہ fund the unfunded. جس رقم نہیں ملتی ہے ان فنڈز ملے. اور مقصد ہے تو میں سادہ زبان میں سمجھاؤں تو "3 تین E، Enterprises، Earning، Empowerment. کرنسی enterprise کو encourage کر رہا ہے، کرنسی earning کے مواقع پیدا کرتا ہے اور کرنسی سچے معنی میں empower کرتا ہے. چھوٹے چھوٹے ادیمیوں کی مدد کرنے کے لئے یہ MUDRA منصوبہ بندی چل رہی ہے. ویسے میں جس رفتار سے جانا چاہتا ہوں وہ رفتار تو ابھی آنی باقی ہے. لیکن شروعات اچھی ہوئی ہے اتنے کم وقت میں قریب 66 لاکھ لوگوں کو 42 ہزار کروڑ روپیہ وزیر اعظم MUDRA منصوبہ بندی سے ان لوگوں کو ملا. دھوبی ہو، نائی ہو، اخبار مچانےوالا ہو، دودھ مچانےوالا ہو. چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے والے لوگ اور مجھے تو خوشی اس بات کی ہوئی کہ قریب ان 66 لاکھ 24 لاکھ خواتین ہے. اور زیادہ تر یہ مدد حاصل کرنے والے SC، ST، OBC اس طبقے کے لوگ ہیں جو خود محنت کر کے اپنے پیروں پر احترام خاندان کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں. ابھیشیک نے تو خود نے اپنے جوش کی بات بتائی ہے. میرے پاس بھی کافی کچھ خبریں آتی رہتی ہیں. مجھے ابھی کسی نے بتایا کہ ممبئی میں کوئی شیلیش بھوسلے کر ہیں. انہوں نے MUDRA منصوبہ کے تحت بینک سے ان ساڑھے آٹھ لاکھ روپے کا قرض ملا. اور انہوں نے sewage dress، صفائی کی business شروع کیا. میں نے اپنے صفائی مہم کے وقت سلسلے میں کہا تھا کہ صفائی مہم ایسا ہے جو نئے entrepreneur تیار کرے گا. اور شیلیش بھوسلے نے کر دکھایا. وہ ایک ٹینکر لائے ہیں اس کام کو کر رہے ہے اور مجھے بتایا گیا کہ اتنے کم وقت میں 2 لاکھ روپے تو انہوں نے بینک کو واپس بھی کر دیا. آخر ہمارا MUDRA منصوبہ بندی کے تحت یہ ہی کرنا ہے. مجھے بھوپال کی ممتا شرما کے بارے میں کسی نے بتایا کہ اس کو یہ وزیر اعظم MUDRA منصوبہ بندی سے بینک سے 40 ہزار روپے ملے. وہ بٹوا بنانے کا کام کر رہی ہے. اور بٹوا بناتی ہے لیکن پہلے وہ زیادہ سود سے پیسے لاتی تھی اور بڑی مشکل سے کاروبار کو چلتی تھی. اب اس کو اچھی مقدار میں ایک ساتھ روپیہ ہاتھ آنے کی وجہ سے اس نے اپنے کام کو سےزیادہ اچھا بنا دیا. اور پہلے جو اضافی سود کی وجہ سے اور، اور وجوہات سے اس کو جو زیادہ خرچہ ہوتا تھا ان دنوں یہ پیسے اس کے ہاتھ میں آنے کی وجہ سے ہر مہینہ قریب قریب ایک ہزار روپے زیادہ بچنے لگ گیا. اور ان کے خاندان کو ایک اچھا کاروبار بھی آہستہ آہستہ پنپنے لگ گیا. لیکن میں چاہوں گا کہ منصوبہ بندی کا اور پروموشنل ہو. ہماری تمام بینک اور زیادہ حساس ہوں اور زیادہ سے زیادہ چھوٹے لوگوں کو مدد کریں. واقعی میں ملک کی economy کو یہی لوگ چلاتے ہیں. چھوٹا چھوٹا کام کرنے والے لوگ ہی ملک کے معنی کو اقتصادی طاقت ہوتے ہیں. ہم اسی کو تقویت دینا چاهتے ہے. اچھا ہوا ہے، لیکن اور اچھا کرنا ہے.

میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر سردار پٹیل کی جوبلی کے دن میں نے "ایک بھارت بہترین بھارت کی بات چیت کی تھی. یہ چیزیں ہوتی ہے جو معاشرے کی زندگی میں مسلسل بیداری بنی رہنی چاہیے. راشٹريام جاگريام ويم "Internal vigilance is the prize of liberty" ملک کے اتحاد یہ رسم سریتا چلتی رہنی چاہیے. "ایک بھارت بہترین بھارت" اس کو میں نے ایک منصوبہ کی شکل دینا چاہتا ہوں. MyGov اس پر تجویز مانگے تھے. Programme کا structure کیسا ہو؟ علامت (لوگو) کیا ہو؟ عوام کی شرکت کس طرح بڑھے؟ کیا طور ہو؟ تمام تجاویز کے لئے میں نے کہا تھا. مجھے بتایا گیا کہ کافی تجویز آ رہے ہیں. لیکن میں اور مزید تجاویز کی توقع کرتا ہوں. بہت specific scheme کی توقع کرتا ہوں. اور مجھے بتایا گیا ہے کہ اس میں حصہ لینے والوں کو certificate ملنے والا ہے. کوئی بڑے بڑے prizes بھی اعلان کئے گئے ہیں. آپ بھی اپنا creative mind لگائیے. اتحاد سالمیت کے اس منتر کو 'ایک بھارت بہترین بھارت' اس منتر کو ایک ایک ہندوستانی کو شامل والا کس طرح بنا سکتے ہیں. کیسی منصوبہ بندی ہو، کیسا پروگرام ہو. جاندار بھی ہو، شاندار بھی ہو، پراوان بھی ہو اور ہر کسی کو شامل کرنے کے لئے آرام دہ اور پرسکون آسان ہو. حکومت کیا کرے؟ معاشرے کیا کرے؟ Civil Society کیا کرے؟ بہت سی چیزیں ہو سکتی ہیں. مجھے یقین ہے کہ آپ کی رائے ضرور کام آئیں گے.

میرے پیارے بھائیو-بہنو، ٹھنڈ کا موسم شروع ہو رہا ہے لیکن ٹھنڈ میں کھانے کا تو مزہ آتا ہی آتا ہے. کپڑے پہننے کا مزہ آتا ہے، لیکن میرا زور رہے گا ورزش کیجئے. میرا زور رہے گا جسم تندرست رکھنے کے لئے ضرور کچھ نہ کچھ وقت یہ اچھے موسم کو استعمال ورزش-یوگا اس کے لئے ضرور کریں گے. اور خاندان میں ہی ماحول بنائے، خاندان کا ایک جشن ہی ہو، ایک گھنٹہ سب مل کر یہی کرنا ہے. آپ دیکھئے کیسی شعور آ جاتی ہے.اور پورے دن بھر جسم کتنا ساتھ دیتا ہے. تو اچھا موسم ہے، تو اچھی عادت بھی ہو جائے. میرے پیارے ہم وطنو کو پھر ایک بار بہت بہت مبارک.

جيهند.

Labels: