Thursday, October 29, 2015

قسط # 13، 2015 25 اکتوبر


میرے پیارے ہم وطنو، آپ سب کو خوش. پھر ایک بار دل کی بات آپ سب کے ساتھ جڑنے کا موقع مجھے ملا ہے. آج ہندوستان - جنوبی افریقہ کے درمیان پاچوا One-day میچ ممبئی میں کھیلنے جا رہا ہے. یہ سیریز ہے جس کا نام 'گاندھی منڈیلا' سیریز دیا گیا ہے. ابھی تک سیریز دلچسپ موڑ پر ہے. دونوں ٹیم دو دو میچ جیت چکی ہیں. اور یہی وجہ ہے کہ آخری میچ کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گیا ہے. میری تمام کھلاڑیوں کو بہت بہت مبارک ہو.






نوٹ: origianl بنایا ہندی نقل سے گوگل ترجمہ سروس استعمال کرتے ہوئے ترجمہ، اس وجہ سے 100٪ درست نہیں ہو 
سکتا کے نتیجے.


آج میں ایئر کے کانپور مرکز کے دوستوں کو مبارک باد دینا چاہتا ہوں. مبارک تو دینی ہے کہ جب میں نے 'دل کی بات' شروع کی تو بہت سے لوگ اس سے جڑتے چلے گئے. اس کیرالہ کی ایک 12 ویں سکول احترام تھامبن منسلک تھیں. کانپور مرکز نے بعد میں اس کو بلایا، اور ایک تقریب منعقد کی اور بہت کچھ feedback کا ماحول بنا. ایک اپنا پن کا احساس بنا. اور ایک 12 ویں کلاس میں پڑھنے والی احترام کی اس بیداری کو کانپور کے ایئر مرکز نے سراہا. اس کو پرسكرت کیا. کانپور ایئر مرکز کی اس بات سے مجھے ہی پریرتا مل گئی. اور میں چاہوں گا کہ ملک بھر میں ایسے ایئر مرکز اگر آپ اپنے علاقے میں اس طرح آگاہ اور فعال لوگوں کی طرف ان کی توجہ گا تو عوام کی شرکت سے ملک چلانے کا ہمارا جو مقصد ہے اس کو ایک نئی طاقت ملے گی. اور اس لئے میں کانپور ایئر مرکز کے تمام ساتھیوں کو دل سے بہت بہت ابھنندن کرتا ہوں، مبارک باد دیتا ہوں. مجھے پھر سے ایک بار آج کیرالہ کی بات کرنی ہے. کیرالہ کے کوچی کے چتور کے Saint Mary Upper-primary School کی طالبات نے مجھے ایک خط بھیجا ہے. خط کئی طور پر خاص ہے. ایک تو ان بچیوں نے اپنے انگوٹھے کے نشان سے بھارت ماتا کی ایک تصویر بنایا ہے، بہت بڑی کپڑے پر. وہ بھارت کی ماں کا، ہندوستان کے نقشے کا وہ تصاویر مجھے بھیجا ہے. پہلے میں حیران تھا کہ انهونے اپنے انگوٹھے کے نشان سے بھارت کا نقشہ کیوں بنایا. لیکن میں نے جب ان کا خط پڑھا تو مجھے سمجھ آیا کہ کتنا بہترین symbolic پیغام انہوں نے دیا ہے. یہ وہ بالكايے ہیں جنہوں نے صرف وزیر اعظم کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے، ایسا نہیں ہے. وہ، آپ کے علاقے میں بھی، لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان کا مشن ہے 'اگدان'. Organ donation کے لئے وہ عوام بیداری مہم چلا رہی ہیں. انہوں نے کئی مقامات پر جا کر تھیٹر نکالی بھی کئے ہیں، تاکہ لوگوں میں اگدان کی سمجھ پھیلے. اگدان ایک ورت اور رجحان بنے. ان بچیوں نے مجھے خط میں لکھا ہے کہ آپ کو آپ کے دماغ کی بات میں organ donation کے بارے میں لوگوں سے اپیل کیجئے. مہاراشٹر کے قریب 80 سالہ وستراو سڑكے گورو جی. وہ تو ہمیشہ ایک movement چلاتے رہتے ہیں. وہ کہتے ہیں اگدان کو ایک جشن بنانا چاہیے. ان دنوں مجھے phone call پر بھی کافی پیغام آتے ہیں. دہلی کے دےوےش نے بھی ایسا ہی ایک پیغام مجھے دیا ہے. 'I am very happy with the government initiative on the organ donation and steps towards creating a policy on the same. The country really needs support in these tongues where people need to go out and help each other and the ambitious target of one per million organ donation in a very productive steps taken by the government. اس موضوع بہت اہم ہے ایسا مجھے لگتا ہے. ملک میں سالانہ ڈھائی لاکھ سے زیادہ kidney، heart اور liver donation کی ضرورت ہے. لیکن سوا سو کروڑ کے ملک میں ہم صرف پانچ ہزار transplant کو ہی کامیاب کر پاتے ہیں. ہر سال ایک لاکھ آنکھوں کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے. اور ہم صرف پچیس ہزار تک پہنچ پاتے ہیں. چار آنکھوں کی ضرورت ہو، ہم صرف ایک دے پاتے ہیں. سڑک حادثے میں موت ہونے پر جسم کے organ کو donate کیا جا سکتا ہے. کچھ قانونی الجھنیں بھی بہت ہیں. ریاستوں کو بھی اس سمت میں رہنمائی کرنے کی کوشش ہے.

کچھ ریاستوں نے کاغذی کارروائی کم کرکے اس میں رفتار لانے کا کافی اچھا کوشش کی ہے. آج میں کہہ سکتا ہوں کہ organ donation اگدان کے میدان میں تمل ناڈو پیشگی قطار میں ہے. کئی سماجی ادارے، بہت NGOs بہت اچھا کام اس سمت میں کر رہے ہیں. organ transplant کو فروغ دینے کے لئے Nation Organ and Tissue Transplant Organization (NOTO) قائم کی گئی ہے. ایک 24x7 Helpline 1800114770 یہ بھی سروس دستیاب ہے. اور ہمارے یہاں تو یہ کہا گیا ہے 'تےن تيكتےن بھجيتھا' قربان کرنے کا جو لطف ہوتا ہے، اس کا بہت بہترین وضاحت 'تےن تيكتےن بھجيتھا' اس منتر میں ہے. گزشتہ دنوں ہم سب نے ٹی وی پر دیکھا تھا کہ دہلی کے جيبي پنت اسپتال میں ایک غریب ٹھےلےوالا، ہاکر، اس کی بیوی کو Liver Transplant کیا گیا. اور یہ Liver خاص انتظام کر لکھنؤ سے دہلی لایا گیا تھا. اور وہ آپریشن کامیاب رہا. ایک زندگی بچ گئی. 'اگدان مهادان'. 'تےن تيكتےن بھجيتھا' اس احساس کو ہم ثابت کریں اور اس بات کو ہم ضرور زور دیں.

پیارے ہم وطنو، ابھی ابھی ہم نے نوراتر اور وجيدشمي کی عید منایا. اور کچھ دنوں کے بعد دیوالی کی عید بھی منائیں گے. عید بھی منائی، گنیش-چترتھي بھی منائی ہے. لیکن اس دوران، ملک ایک بڑا جشن منانے جا رہا ہے. ہم سب ہم وطنوں کو فخر ہو، فخر ہو. آنے والے 26 سے 29 اکتوبر، بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں 'India-Africa Foreign Summit' کا انعقاد ہو رہا ہے. بھارت کی سرزمین پر پہلی بار اتنے بڑے scale پر منعقد ہو رہا ہے. چوون افریقی ممالک اور یونینوں کے لیڈرز کو مدعو کیا گیا ہے. افریقہ کے باہر افریقی ممالک کا سب سے بڑا ایک کانفرنس ہو رہا ہے. بھارت اور افریقہ کے تعلق گہرے ہیں. جتنی آبادی ہندوستان کی ہے اتنی ہی آبادی افریقی ممالک کی ہے. اور دونوں کی ملا دیں تو ہم دنیا کی ایک تہائی آبادی ہیں. اور کہتے ہیں، نغمے سال پہلے، یہ ایک ہی زمین حصہ تھا. بعد میں هدمهاساگر سے یہ دو ٹکڑے تقسیم ہوئے. ہمارے درمیان بہت ساميتا ہے. بھارت کی مخلوق-مخلوق اور افریقہ کی مخلوق-مخلوق بہت قسم سے ملتی جلتی ہیں. قدرتی وسائل میں بھی ہماری کافی قربت ہے. اور ہندوستان کے قریب 27 لاکھ لوگ، ان ممالک میں بہت طویل دور سے آباد ہیں. بھارت کے افریقی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلق ہیں، ثقافتی تعلق ہیں، سفارتی تعلق ہیں، لیکن سب سے زیادہ افریقی ممالک کی نوجوان نسل کی تربیت میں ہندوستان بہت بڑی، اهم کردار ادا کرتا ہے. Human Resource Development، Capacity Building 25 ہزار سے زیادہ افریقی student بھارت میں پڑھے ہیں. اور آج افریقہ کے بہت سے ملک کے لیڈر ہیں، بھارت میں پڑھ کر گئے ہیں. تو ہمارا کتنا گہرا تعلق ہے. اور اس نقطہ نظر سے اس Summit بڑا اہم ہے. عام طور پر جب سممٹ ہوتی ہے تب مختلف-مختلف ممالک کے سربراہ ملتے ہیں. ویسے ہی ایک Summit میں بزرگوں کی میٹنگ ہونے والی ہے. دیکھئے یہ ہماری کوشش ہے کہ یہ عوام کا بھی ملن ہونا چاہیے.

اور اس بار، ہندوستان کی حکومت نے، خاص طور پر کے HRD Ministry نے ایک بڑا ہی اچھا پروگرام کیا. CBSE کے جتنے بھی affiliated اسکول ہیں، ان کے بچوں کے درمیان ایک 'Essay Competition' کا پروگرام کیا گیا، كوتايے لکھنے کا پروگرام کیا گیا، ان کی شرکت بڑھانے کا پروگرام کیا گیا. قریب 16 سو اسکولوں نے اس میں حصہ لیا. بھارت اور بھارت کے باہر کے بھی اسکول تھے. اور ہزاروں ہزاروں اسکول کے بچوں نے ہندوستان افریقہ تعلقات کو تقویت دینے والی باتیں لکھیں. دوسری طرف، مہاتما گاندھی کی پیدائش زمین پوربندر سے 'Memories of Mahatma' ایک نمائش، موبائل نمائش پوربندر سے شمالی ریاستوں کا سفر کرتے کرتے 29 اکتوبر کو دہلی پہنچ رہی ہے. نغمے اسکول کے بچوں نے اس نمائش کو دیکھا، گاؤں لوگوں نے دیکھا. اور افریقہ اور بھارت کے تعلقات میں مہاتما گاندھی کی کیسی عظیم کردار رہی تھی، مہاتما گاندھی کی شخصیت کا اثر ان دونوں زمین حصہ پر کتنا رہا تھا، اس کو لوگوں نے جانا، پہچانا. یہ جو مقابلہ ہوا، اس میں بہت بہترین قسم کی رچنايے آئیں. ایک مخلوق کی طرف میری توجہ جاتا ہے، مجھے اچھا لگا، تو میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں. ہمارے چھوٹے چھوٹے مقام پر اسکولوں کے بچے بھی کتنے ذہین ہیں، ان کے نقطہ نظر کتنی وسیع ہے، اور کتنی گہرائی سے سوچتے ہیں، اس کا اس فلسفہ ہوتا ہے. مذپھپھرنگر، اتر پردیش، وہاں سے وقار گپتا نے مقابلے میں ایک آیت لکھی ہے. اور بہترین لکھا ہے اس نے. اس نے لکھا ہے -


افریقہ میں دریائے نیل، سمندر کا نام ہے 'سرخ'.
براعظم وسیع ہے، بیرون ملک مقیم بھارتی خوشحال ..



جیسے سندھ وادی کی تہذیب، بھارت کی شناخت.
دریائے نیل اور قرطاج ہیں، افریقی تہذیب میں عظیم ..



گاندھی جی نے شروع کیا، افریقہ تحریک.
ایسا چلایا جادو بالکل، جیت لیا سب کا دل ..

جوہانسبرگ ہو یا کنگسٹن، زمبابوے ہو یا چاڈ.
تمام افریقی ممالک میں، ملتی ہے ہماری آلو چاٹ ..

لکھنے کو تو لکھ ڈالوں، صف کئی ہزار.
افریقہ کے جنگلوں سے، کرتی ہوں میں محبت ..


ویسے شاعری تو بہت لمبی ہے، لیکن میں نے کچھ ہی چیزوں کو آپ سنایا ہے. ویسے تو یہ Summit Indo-Africa ہے. لیکن عوام جنوری کو شامل کرنے کا کیسا موقع بنتا ہے، یہ صاف صاف ہمیں دکھائی دیتا ہے. میں وقار کو، اس میں حصہ لینے والے تمام بچوں کو، 1600 سے زیادہ اسکولوں کو اور HRD Ministry کو بہت بہت ابھنندن کرتا ہوں.

میں نے 15 اگست کو پچھلی بار ایم پی مثالی گرام منصوبہ بندی کے سلسلے میں ایک تجویز پیش کی تھی. اس کے بعد بہت سے رہنما دوستوں نے اس کام کا احساس کیا. بڑے دل سے لگے رہے. گزشتہ ماہ بھوپال میں ایک ورکشاپ ہوئی. جس جہاں یہ مثالی گرام ہو رہے ہیں، وہاں کے وزیر، وہاں کے کلیکٹر، وہاں کے کچھ ایم پی، بھارت حکومت، ریاست حکومت سب نے مل کر کے مثالی گرام منصوبہ بندی کے موضوع پر گہری بات چیت کی. کس قسم کی نئی نئی چیزیں ذہن میں آئیں اور بڑی ہی حوصلہ افزا ذہن میں آئیں. کچھ چیزیں ضرور میں آپ کی توجہ میں لانا چاہتا ہوں ... جھارکھنڈ، ایک قسم سے کافی بڑا پردیش، قبائلی علاقہ ہے. بدقسمتی سے ماؤنوازوں، اگرپتھ، بم شاٹگن، لہو-لهان زمین جھارکھنڈ کی جب بات آتی ہے تو یہ ساری بات سنائی دیتی ہیں. ان بائیں بازو عسکریت پسندوں کے اثرات کے تحت وہاں کے بہت سے علاقے برباد ہوئے ہیں.لیکن وہاں ہمارے ایم پی، ویسے بہت بڑے سینئر ہیں، کبھی پارلیمنٹ میں ڈپٹی-اسپیکر بھی رہے ہیں، سر کریا منڈا جی، قبائلیوں کے لئے انہوں نے اپنی زندگی كھپاي ہوئی ہے. انہوں نے جھارکھنڈ کے كتي ضلع کے پرسي گرام پنچایت کو مثالی گرام بنانے کے لئے کیا. عسکریت پسند، بائیں بازو کا راز جہاں چلتا تھا وہاں سرکاری ملازموں کے لئے جانا بھی مشکل تھا. ڈاکٹر تک جا نہیں پاتے تھے. انہوں نے خود جانا-آنا شروع کیا، لوگوں میں اعتماد پیدا کیا، سرکاری انتظامات میں جان بھرنے کی کوشش کی. ادھكاريو آنے کے لئے حوصلہ افزائی کی اور ایک طویل عرصے سے بے حسی کا جو ماحول تھا، اس میں کچھ کر گزرنے کی خواہش پیدا کی. مثالی گرام میں Infrastructure کے اور انتظامات کے ساتھ ساتھ یہ عوام شعور بیدار کا ایک بڑا ہی کامیاب کوشش، جھارکھنڈ کے اس پرسي گاؤں میں ہوا. میں آدرنیی ایم پی حضرات کریا منڈا جی کو مبارک باد دیتا ہوں.

ویسی ہی مجھے ایک خبر ملی آندھرا سے. آندھرا کے ایم پی اشوک گجپت راجو جی مثالی گرام کی منصوبہ بندی میں وہ خود کھپ گئے اور انہوں نے آندھرا پردیش کے وجيانگرم ضلع کے دواراپڑي گرام پنچایت کو مثالی گرام کے لئے منتخب کیا. باقی بندوبست تو ہو رہی ہے، لیکن انہوں نے ایک بڑا خاص innovative کام کیا. انہوں نے وہاں کے اسکولوں میں جو طالب علم پڑھتے ہیں ان ایک کام دیا کیونکہ گاؤں میں نئی ​​نسل تو تعلیم کے لئے خوش قسمت بنی ہے لیکن گاؤں کی پرانی نسل ناخواندہ ہے تو انہوں نے جو بڑی عمر کے بچے تھے ان کہا کہ اب ہر دن آپ کو اپنے ما- باپ کو اس کلاس میں پڑھانا ہے اور وہ اسکول ایک قسم سے صبح بچوں کے لئے تعلیم، اور شام کو بچوں کو استاد بنانے والی تعلیم دیتا ہے. اور قریب قریب پانچ سو پچاس بالغ ناخواندہ کو انہی بچوں نے پڑھایا، ان کا علم کیا. دیکھئے، معاشرے میں کوئی بجٹ نہیں، کوئی Circular نہیں، کوئی خاص انتظام نہیں، لیکن، خواہش-طاقت سے کتنا بڑا تبدیلی لایا جا سکتا ہے وہ دواراپڑي گرام پنچایت سے دیکھنے کو مل رہا ہے.

ویسے ہی ایک ہمارے آدرنیی ایم پی حضرات سی. ایل. روالا، یہ میزورم کے ایم پی ہے، نارتھ ایسٹ ... انہوں نے كھوالاهيلگ گاؤں کو مثالی گرام کے لئے منتخب کیا اور انہوں نے ایک خاص کام كيايے گاؤں، سگركےن، گنے کی پیداوار کے لئے اور ریاست میں كرتايي گڑ کے لئے کافی مشہور ہے . سر روالا جی نے گاؤں میں 11 مارچ کو كرتايي Kut کی Sugarcane Festival شروع كياسبھي علاقے کے لوگ اس متحد ہو گئے. پرانے عوامی زندگی کے لوگ بھی آئے، وہاں سے نکلے ہوئے سرکاری افسر بھی آئے اور گنے کی پیداوار کی فروخت بڑھے اس کے لئے ایک نمائش بھی لگائی گييگاو کو اقتصادی سرگرمی کا مرکز کس طرح بنایا جا سکتا ہے، گاؤں کے ہی پیداوار market کس طرح کیا جا سکتا ہے. مثالی گاؤں کے ساتھ ساتھ ایک خود کفیل گاؤں بنانے کا ان کی کوشش لفظی سر روالا جی ابھنندن کے افسر ہیں.

میرے پیارے بھائیو بہنوں، دماغ کی بات ہو اور حفظان صحت کی بات نہ آئے ایسا کیسے ہو سکتا ہے. مجھے ممبئی سے سوتا رائے نے ایک ٹیلی فون کی طرف سے پیغام بھیجا ہے "دیوالی کی تیاری کے لئے ہر سال ہم اپنے گھروں کو صاف کرتے ہیں. اس دیوالی کو ہم اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ آپ باہر کے ماحول کو بھی صاف بنائیں اور اس دیوالی کے بعد بھی صاف بنائے رکھیں. "انہوں نے صحیح بات پر توجہ اپنی طرف متوجہ کیا ہے. میں آپ کو یاد کرانا چاہتا ہوں میرے پیارے ہم وطنو، گزشتہ سال دیوالی کے تہوار کے بعد ہمارے ملک کے خاص کر میڈیا نے ایک بڑی مہم چلائی اور دیوالی کے بعد جہاں جہاں آتشبازی پڑے تھے وہ ساری چیزیں دكھاي اور انہوں نے کہا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے .ایک بیداری کی مہم چلا لیا تھا تمام میڈیا والوں نے. اور اس کا نتیجہ یہ آیا کہ دیوالی کے فورا بعد ایک صفائی کی مہم چل پڑا تھا، اپنے آپ چل پڑا تھاتو آپ کی بات صحیح ہے کہ ہم تہوار کے پہلے جتنی فکر کرتے ہیں تہوار کے بعد بھی کرنی چاهيےهر عوامی پروگرام میں کرنی چاہئے. اور میں آج خاص طور پر ہندوستان کے سارے میڈیا دنیا کو ابھنندن کرنا چاہتا ہوں. گزشتہ 2 اکتوبر کو مہاتما گاندھی جی کی پیدائش-جینتی پر اور صاف-بھارت مہم کے ایک سال پر مجھے انڈیا ٹوڈے گروپ کی طرف سے 'سفايگري کانفرنس' میں شريق ہونے کا موقع ملا. انہوں نے Clean India Awards دیے اور میں بھی دیکھ رہا تھا کتنے قسم کی سرگرمی چل رہی ہے. کیسے کیسے لوگ اس کے لئے اپنے آپ کو 'جنگل لائک ون مشن کی طرح کام کر رہے ہیں. ہمارے ملک میں کیسے کیسے مقام ہیں جو اتنا صاف رکھے گئے ہیں.ان ساری باتیں بے نقاب ہوئیں اور میں نے اس وقت انڈیا ٹی وی گروپ کے اس قابل ستائش کام کو دل سے مبارک باد دی تھی.

Labels: