Sunday, September 20, 2015

قسط # 12، 2015 20 ستمبر


میرے پیارے ہم وطنو، آپ سب کو خوش! 'دل کی بات' کا یہ بارهوا اقساط ہے اور اس حساب سے دیکھیں تو ایک سال گزر گیا. گزشتہ سال، 3 اکتوبر کو پہلی بار مجھے 'دل کی بات' کرنے کا موقع ملا تھا. 'دل کی بات' - ایک سال، متعدد چیزیں. میں 
نہیں جانتا ہوں کہ آپ نے کیا پایا، لیکن میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں، میں نے بہت کچھ پایا.



نوٹ: origianl بنایا ہندی نقل سے گوگل ترجمہ سروس استعمال کرتے ہوئے ترجمہ، اس وجہ سے 100٪ درست نہیں ہو سکتا کے نتیجے.
جمہوریت میں عوام طاقت کا بہت زیادہ اہمیت ہے. میری زندگی میں ایک بنیادی سوچ رہی ہے اور اس وجہ سے عوام کی طاقت پر میرا بہت زیادہ یقین رہا ہے. لیکن 'دل کی بات' نے مجھے سکھایا جو جو وضاحت کی، جو جانا جو تجربہ کیا، اس میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم سوچتے ہیں، اس سے بھی زیادہ عوام کی طاقت اپرمپار ہوتی ہے. ہمارے باپ دادا کہا کرتے تھے کہ عوام کے سامنے، یہ خدا کا ہی حصہ ہوتا ہے. میں 'دل کی بات' میرے تجربات سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے باپ دادا کی سوچ میں ایک بہت بڑی طاقت ہے، بہت بڑی حقیقت ہے، کیونکہ میں نے یہ تجربہ کیا ہے. 'دل کی بات' کے لئے میں نے لوگوں سے تجاویز مانگتا تھا اور شاید ہر بار دو یا چار تجاویز کو ہی ہاتھ لگا پاتا تھا. لیکن لاکھوں کی تعداد میں لوگ فعال ہو کر کے مجھے مشورہ دیتے رہتے تھے. یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی طاقت ہے، ورنہ وزیر اعظم کو پیغام دیا، mygov.in پر لکھ دیا، چٹھی بھیج دی، لیکن ایک بار بھی ہمارا موقع نہیں ملا، تو کوئی بھی شخص مایوس ہو سکتا ہے. لیکن مجھے ایسا نہیں لگا.
جی ہاں ... مجھے ان نغمے خطوط نے ایک بہت بڑا متن بھی پڑھایا. حکومت کی متعدد باريق مشکلات کے بارے میں مجھے معلومات ملتی رہی اور میں ایئر کا بھی ابھنندن کرتا ہوں کہ انہوں نے ان تجاویز کو صرف ایک کاغذ نہیں سمجھا، ایک عوام عام کی خواہش سمجھا. انہوں نے اس کے بعد پروگرام کئے. حکومت کے مختلف-مختلف محکموں کو ایئر میں بلایا اور عوام کے سامنے نے جو باتیں کہی تھیں، ان کے سامنے رکھیں. کچھ باتوں کا ختم کروانے کی کوشش کی. حکومت کے بھی ہمارے مختلف-مختلف محکموں نے، لوگوں میں ان خطوط کا analysis کیا اور وہ کون سی چیزیں ہیں کہ جو policy matters ہیں؟ وہ کون سی باتیں ہیں جو person کی وجہ پریشانی ہیں؟ وہ کون سی چیزیں ہیں جو حکومت کی توجہ ہی نہیں ہیں؟ بہت سی چیزیں grass-root level سے حکومت کے پاس آنے لگیں اور یہ بات صحیح ہے کہ governance کا ایک بنیادی اصول ہے کہ معلومات نیچے سے اوپر کی طرف جانی چاہئے اور رہنمائی اوپر سے نیچے کی طرف جانا چاہیے. یہ معلومات کا منبع، 'دل کی بات' بن جائے گا، یہ کہاں سوچا تھا کسی نے؟ لیکن یہ ہو گیا.
اور اسی طرح سے 'دل کی بات' نے سماج- طاقت کے اظہار کا ایک موقع بنا دیا. میں نے ایک دن ایسے ہی کہہ دیا تھا کہ سےلفي ود ڈٹر (selfie w.th daughter) اور ساری دنیا تعجب ہو گئی، شاید دنیا کے تمام ممالک سے کسی نہ کسی نے لاکھوں کی تعداد میں سےلفي ود ڈٹر (selfie w.th daughter) اور بیٹی کو کیا وقار مل گئی. اور جب وہ سےلفي ود ڈٹر (selfie w.th daughter) کرتا تھا، تب اپنی بیٹی کا تو حوصلہ بلند کرتا تھا، لیکن اپنے اندر بھی ایک commitment پیدا کرتا تھا. جب لوگ دیکھتے تھے، ان کو بھی لگتا تھا کہ بیٹیوں کے فی بے حسی اب چھوڑنی ہوگی. ایک Silent Revolution تھا.
بھارت کے tourism کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے ایسے ہی شہریوں کو کہا تھا، "Incredible India"، کہ بھئی، آپ بھی تو جاتے ہو، جو کوئی اچھی تصویر ہو تو بھیج دینا، میں دیکھوں گا. یوں ہی ہلکی-پھلكي بات کی تھی، لیکن کیا بڑا غضب ہو گیا! لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کے ہر کونے کی ایسی ایسی فوٹو لوگوں نے نازل کیں. شاید حکومت ہند کے tourism نے، ریاستی حکومت کے tourism department نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ہمارے پاس ایسی ایسی وراستے ہیں. ایک platform پر سب چیزیں آئیں اور حکومت کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا. لوگوں نے کام کو بڑھا دیا.
مجھے خوشی تو تب ہوئی کہ گزشتہ اکتوبر مہینے کے پہلے میری جو پہلی 'دل کی بات' تھی، تو میں نے گاندھی جینتی کا ذکر کیا تھا اور لوگوں کو ایسے ہی میں نے دعا کی تھی کہ 2 اکتوبر مہاتما گاندھی کی جینتی ہم منا رہے ہیں. ایک وقت تھا، کھادی فار نیشن (Khadi for Nation). کیا وقت کا تقاضا نہیں ہے کہ کھادی فار فیشن (Khadi for Fashion) - اور لوگوں کو میں نے زور دیا تھا کہ آپ کھادی كھريديے. تھوڑا بہت کیجئے. آج میں بڑے اطمینان کے ساتھ کہتا ہوں کہ گزشتہ ایک سال میں قریب قریب کھادی کی فروخت ڈبل ہوئی ہے. اب یہ کوئی سرکاری advertisement سے نہیں ہوا ہے. اربوں کھربوں روپے خرچ کر کے نہیں ہوا ہے. عوام طاقت کا ایک احساس، ایک احساس.
ایک بار میں نے 'دل کی بات' میں کہا تھا، غریب کے گھر میں چولہا جلتا ہے، بچے روتے رہتے ہیں، غریب ماں - کیا اس gas cylinder نہیں ملنا چاہئے؟ اور میں نے ہوگیا لوگوں سے دعا کی تھی کہ آپ subsidy surrender نہیں کر سکتے کیا؟ سوچیں ... اور میں آج بڑے لطف کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ اس ملک کے تیس لاکھ خاندانوں نے gas cylinder کی subsidy چھوڑ دی ہے - اور یہ امیر لوگ نہیں ہیں. ایک TV channel پر میں نے دیکھا تھا کہ ایک retired teacher، بیوہ عورت، وہ قطار میں کھڑی تھی subsidy چھوڑنے کے لئے. معاشرے کے عام جنوری بھی، درمیانے طبقے، مندرجہ ذیل درمیانے طبقے جن کے لئے subsidy چھوڑنا مشکل کام ہے. لیکن ایسے لوگوں نے چھوڑ دیا. کیا یہ Silent Revolution نہیں ہے؟ کیا یہ عوام کی طاقت کے فلسفہ نہیں ہیں؟
حکومتوں کو بھی سبق سیکھیں گے کہ ہماری سرکاری چوکھٹ میں جو کام ہوتا ہے، اس چوکھٹ کے بعد ایک بہت بڑی عوام کی طاقت کا ایک سامرتھيوان، ؤرجاوان اور سكلپوان معاشرہ ہے. حکومتیں جتنی معاشرے سے جڑ کر چلتی ہیں، اتنی زیادہ معاشرے میں تبدیلی کے لئے ایک اچھی catalytic agent کے طور پر کام کر سکتی ہیں. 'دل کی بات' میں، مجھے سب جن چیزوں میں میرا اعتماد تھا، لیکن آج وہ ایمان میں پلٹ گیا، احترام میں پلٹ گیا اور اس لئے میں آج 'دل کی بات' کے ذریعے ایک بار پھر عوام کی طاقت کو سو-سو وندن کرنا چاہتے ہیں، نمن کرنا چاہتا ہوں. ہر چھوٹی چیز کو اپنی بنا لی اور ملک کی بھلائی کے لئے اپنے آپ کو شامل کرنے کی کوشش کی. اس سے بڑا اطمینان کیا ہو سکتا ہے؟
'دل کی بات' میں اس بار میں نے ایک نیا استعمال کرنے کے لئے سوچا. میں نے ملک کے شہریوں سے دعا کی تھی کہ آپ telephone کرکے اپنے سوال، آپ کی تجاویز درج كرواے، میں 'دل کی بات' میں اس پر توجہ دوں گا. مجھے خوشی ہے کہ ملک میں سے تقریبا پچپن ہزار سے زیادہ phone calls آئے. چاہے سیاچن ہو، چاہے خام ہو یا كامروپ ہو، چاہے کشمیر ہو یا کنیا کماری ہو. ہندوستان کا کوئی زمین حصہ ایسا نہیں کریں گے، جہاں سے لوگوں نے phone calls نہ شدہ ہوں. یہ اپنے آپ میں ایک خوشگوار تجربہ ہے. تمام عمر کے لوگوں نے پیغام دیا ہے. کچھ تو پیغام میں نے خود نے سننا بھی پسند کیا، مجھے اچھا لگا. باكيو پر میری team کام کر رہی ہے. آپ نے بھلے ایک منٹ دو منٹ لگائے ہوں گے، لیکن میرے لئے خوش phone call، آپ پیغام بہت اہم ہے. پوری حکومت آپ کی تجاویز پر ضرور کام کرے گی.
لیکن ایک بات میرے لئے حیرت کی رہی اور لطف کی رہی. ویسے ایسا لگتا ہے، جیسے چاروں طرف negativity ہے، منفی ہے. لیکن میرا تجربہ مختلف رہا. ان پچپن ہزار لوگوں نے اپنے طریقے سے اپنی بات بتانی تھی. بے روكٹوك تھا، کچھ بھی کہہ سکتے تھے، لیکن میں حیران ہوں، ساری باتیں ایسی ہی تھیں، جیسے 'دل کی بات' کے سائے میں ہوں. مکمل طور مثبت، سجھاواتمك، تخلیقی - یعنی دیکھئے ملک کا عام شہری بھی مثبت سوچ لے کر چل رہا ہے، یہ تو کتنی بڑی سرمایہ ہے ملک کی. شاید 1٪، 2٪ ایسے فون کر سکتے ہیں جس میں کوئی سنگین قسم کی شکایت کا ماحول ہو. ورنہ 90 فیصد سے بھی زیادہ ایک توانائی بھرنے والی، لطف دینے والی باتیں لوگوں نے کہی ہیں.
ایک بات اور ذہن میں میرے آئی، خاص کر specially abled - اس میں بھی خاص کر کے نابینا آپ سوجن، ان کافی فون آئے ہیں. لیکن ان کی وجہ سے یہ ہو گا، شاید یہ TV دیکھ نہیں پاتے، یہ ریڈیو ضرور سنتے ہوں گے. نابینا لوگوں کے لئے ریڈیو کتنا بڑا اہم ہو جائے گا، وہ مجھے اس بات سے توجہ میں آیا ہے. ایک نیا پہلو میں دیکھ رہا ہوں، اور اتنی اچھی اچھی باتیں بتائی ہیں ان لوگوں نے اور حکومت کو بھی ذمہ دار بنانے کے لئے کافی ہے.
مجھے الور، راجستھان سے ہوا آچاریہ نے ایک پیغام دیا ہے، میں مانتا ہوں، ہوا آچاریہ کی بات پورے ملک کو سننی چاہئے اور پورے ملک کو ماننی چاہئے. دیکھئے، وہ کیا کہنا چاہتے ہیں، ضرور سنئے - "میرا نام پون آچاریہ ہے اور میں الور، راجستھان سے بلنگ کرتا ہوں. میرا میسیج وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی جی سے یہ ہے کہ براہ مہربانی، آپ کو اس بار 'دل کی بات' میں پورے ہندوستان ملک کے عوام سے اپیل کریں کہ دیوالی پر وہ زیادہ سے زیادہ مٹی کے دیوں کا استعمال کریں. اس سے ماحول تو فائدہ ہو گا ہی ہوگا اور ہزاروں کمہار بھائیوں کو روزگار کا موقع ملے گا. شکریہ. "
ہوا، مجھے یقین ہے کہ ہوا کی طرح آپ کی یہ احساس ہندوستان کے ہر کونے میں ضرور پہنچ جائے گی، پھیل جائے گی. اچھا مشورہ دیا ہے اور مٹی کا تو کوئی مول نہیں ہوتا ہے، اور اس وجہ سے مٹی کے دیے بھی قیمتی ہوتے ہیں. ماحول بھی اس کی ایک اہمیت ہے اور کیا بنتا ہے غریب کے گھر میں، چھوٹے چھوٹے لوگ اس کام سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور میں ملک کے باشندوں کو ضرور کہتا ہوں کہ آنے والے تہوار میں ہوا آچاریہ کی بات اگر ہم مانیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ دیا ہمارے گھر میں جلے گا، لیکن روشنی غریب کے گھر میں ہوگی.
میرے پیارے ہم وطنو، گنیش Chaturthi کے دن مجھے فوج کے جوانوں کے ساتھ دو تین گھنٹے خرچ کرنے کا موقع ملا. پانی، آرمی اور فضائی حفاظت کرنے والی ہماری پانی فوج ہو، بری فوج ہو یا ایئر فورس ہو - Army، Air Force، Navy. 1965 کا جو جنگ ہوا تھا پاکستان کے ساتھ، اس کو 50 سال مکمل ہوئے، اس خاطر دہلی میں انڈیا گیٹ کے قریب ایک 'شورياجل' نمائش کی تخلیق ہے. میں نے اس شوق سے دیکھتا رہا، گیا تھا تو آدھے گھنٹے کے لئے، لیکن جب نکلا تو ڈھائی گھنٹے ہو گئے اور پھر بھی کچھ نامکمل رہ گیا. کیا کچھ دیکھیں نہیں تھا؟ مکمل تاریخ زندہ کر کے رکھ دیا ہے. Aesthetic نقطہ نظر سے دیکھیں، تو بھی بہتر ہے، تاریخ کی نظر سے دیکھیں، تو بڑا educative ہے اور زندگی میں پریرتا کے لئے دیکھیں، تو شاید وطن کی خدمت کرنے کے لئے اس سے بڑی کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہو سکتی ہے. جنگ کے جن proud moments اور ہمارے جنگجوؤں کے ادمی جرات اور قربانی کے بارے میں ہم سب سنتے رہتے تھے، اس وقت تو اتنے photograph بھی available نہیں تھے، اتنی videography بھی نہیں ہوتی تھی. اس نمائش کے ذریعے اس احساس ہے.
جنگ هاجيپير کی ہو، اصل جوابات کی ہو، چمنڈا کی لڑائی ہو اور هاجيپير پاس کے جیت کے مناظر کو دیکھیں تو مہم جوئی ہوتا ہے اور آپ فوج کے جوانوں کے تئیں فخر ہے. مجھے ان بہادر خاندانوں سے بھی ملنا ہوا، ان بلداني خاندانوں سے ملنا ہوا اور جنگ میں جن لوگوں نے حصہ لیا تھا، وہ بھی اب زندگی کے جوابات دور سیکشن میں ہیں. وہ بھی پہنچے تھے. اور جب ان سے ہاتھ ملا رہا تھا تو لگ رہا تھا کہ واہ، کیا توانائی ہے، ایک مثال دیتا تھا. اگر آپ تاریخ بنانا چاہتے ہیں، تو تاریخ کی تفصیلات جاننا-سمجھنا ضروری ہوتا ہے. تاریخ ہمیں اپنی جڑوں سے جوڑتا ہے. تاریخ سے اگر ناطہ چھوٹ جاتا ہے تو تاریخ بنانے کے امکانات کو بھی مکمل سٹاپ لگ جاتا ہے. اس شوریہ نمائش کے ذریعے تاریخ کے احساس ہے. تاریخ کی معلومات ہوتی ہے. اور نئے تاریخ بنانے کی پریرتا کے بیج بھی بوئے جا سکتے ہیں. میں آپ کو، آپ کے وارثین کو - اگر آپ دہلی کے آس پاس ہیں - شاید نمائش ابھی کچھ دن چلنے والی ہے، آپ ضرور دیکھیں. اور جلدی مت کرنا میری طرح. میں تو دو ڈھائی گھنٹے میں واپس آ گیا، لیکن آپ کو تو تین چار گھنٹے ضرور لگ جائیں گے. ضرور دیکھیں.
جمہوریت کی طاقت دیکھئے، ایک چھوٹا بچہ نے وزیر اعظم کو حکم ہے، لیکن وہ بچہ جلدی میں اپنا نام بتانا بھول گیا ہے. تو میرے پاس اس کا نام تو ہے نہیں، لیکن اس بات وزیر اعظم کو تو غور کرنے جیسی ہے ہی، لیکن ہم سب ہم وطنوں کو غور کرنے جیسی ہے. سنئے، یہ بچے ہمیں کیا کہہ رہا ہے:
"وزیر اعظم مودی جی، میں آپ کو کہنا چاہتا ہوں کہ جو آپ نے صفائی مہم چلائی ہے، اس کے لئے آپ کو ہر جگہ، ہر گلی میں ڈسٹبن لگواے."
اس بچے نے صحیح کہا ہے. ہمیں حفظان صحت ایک مزاج بھی بنانا چاہیے اور حفظان صحت کے لئے ويوستھايے بھی بنانی چاہیے. مجھے اس لڑکے کے پیغام سے ایک بہت بڑا اطمینان ملا. اطمینان اس بات کا ملا، 2 اکتوبر کو میں نے صاف بھارت کو لے کر کے ایک مہم کو چلانے کا اعلان کیا، اور میں کہہ سکتا ہوں، شاید آزادی کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہوگا کہ پارلیمنٹ میں بھی گھنٹوں تک حفظان صحت موضوع پر آج کل بحث ہوتی ہے. ہماری حکومت پر تنقید بھی ہوتی ہے. مجھے بھی بہت کچھ سننا پڑتا ہے کہ مودی جی بڑی بڑی باتیں کرتے تھے حفظان صحت کی، لیکن کیا ہوا؟ میں اسے برا نہیں مانتا ہوں. میں اس میں سے نیکی یہ دیکھ رہا ہوں کہ ملک کی پارلیمنٹ بھی ہندوستان کی حفظان صحت کے لئے بحث کر رہی ہے.
اور دوسری طرف دیکھئے، ایک طرف پارلیمنٹ اور ایک طرف اس ملک کا بچے - دونوں حفظان صحت کے اوپر بات کریں، اس سے بڑا ملک کی خوش قسمتی کیا ہو سکتا ہے. یہ جو تحریک چل رہا ہے خیالات کا، گندگی کی طرف نفرت کا جو ماحول بن رہا ہے، حفظان صحت کی طرف ایک بیداری آئی ہے - یہ حکومتوں کو بھی کام کرنے کے لئے مجبور کرے گی، کرے گی، کرے گی! مقامی سوراج کے اداروں کو بھی - چاہے پنچایت ہو، نگر پنچایت ہو، بلدیہ ہو، مهانگرپالكا ہو یا ریاست ہو یا مرکز ہو - ہر کسی کو اس پر کام کرنا ہی پڑے گا. اس تحریک کو ہمیں آگے بڑھانا ہے، کوتاہیوں کے رہتے ہوئے بھی آگے بڑھانا ہے اور اس ہندوستان کو، 2019 میں جب مہاتما گاندھی کے 150 ویں جينتي ہم منايےگے، مہاتما گاندھی کے خواب کو پورا کرنے کی سمت میں ہم کام کریں.
اور آپ کو معلوم ہے، مہاتما گاندھی کہتے تھے؟ ایک بار انہوں نے کہا ہے کہ آزادی اور حفظان صحت دونوں میں سے مجھے ایک پسند ہے، تو میں نے پہلے حفظان صحت پسند کروں گا، آزادی کے بعد. گاندھی کے لئے آزادی سے بھی زیادہ حفظان صحت کی اہمیت تھا. آئیے، ہم سب مہاتما گاندھی کی بات کو مانیں اور ان کی خواہش کو پوری کرنے کے لئے کچھ قدم ہم بھی چلیں. دہلی سے گلشن ارورہ جی نے MyGov پر ایک میسیج چھوڑا ہے.
انہوں نے لکھا ہے کہ دین دیال جی کی پیدائش صدی کے بارے میں وہ جاننا چاہتے ہیں.
میرے پیارے ہم وطنو، عظیم لوگوں کی زندگی ابد تک ہمارے لئے پریرتا کا سبب رہتا ہے. اور ہم لوگوں کا کام، عظیم انسان کس نظریہ کے تھے، اس کا اندازہ کرنا ہمارا کام نہیں ہے. ملک کے لئے رہنے-مرنے والے ہر کوئی ہمارے لئے ترغیب ہوتے ہیں.

Labels: